| مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق صبا قمر کے خلاف لاہور کی سیشن کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے |
لاہور — 25 دسمبر، 2025
"اوہ خدایا! آج کل میں بہت زیادہ مشہور ہوگئی ہوں۔"
یہ صرف ایک طنز نہیں تھا۔ یہ ایک سوال تھا۔ ایک ایسا سوال جو پورے معاشرے سے پوچھا گیا تھا: ہم کس حد تک فن کو سمجھتے ہیں؟ کیا ہر اداکار کا لباس اس کی ذات ہوتی ہے؟ کیا ایک ڈرامے کا کردار، ایک قانونی جرم بن سکتا ہے؟
جب صبا قمر نے اپنے خلاف لاہور کی سیشن کورٹ میں دائر شدہ درخواست پر یہ طنزیہ ردِعمل دیا تو ان کے الفاظ نے صرف سوشل میڈیا کو نہیں ہلا دیا — بلکہ ہمارے سماجی اقدار، قانونی نظام اور فن کی آزادی کے بارے میں ایک گہرا سوال اٹھا دیا۔
کیا ہوا تھا؟ ایک وردی، ایک ویڈیو، اور ایک درخواست
معاملہ کی بنیاد ایک ویڈیو پر ہے — جو اب سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے۔ اس ویڈیو میں صبا قمر ڈریسنگ روم میں دکھائی دیتی ہیں، جہاں وہ ایک ڈرامے کے کردار کے لیے ایس پی (سرکاری پولیس افسر) کی وردی پہن رہی ہیں۔ یہ وردی کوئی عام لباس نہیں تھی — یہ ایک کردار کی نمائندگی تھی، ایک کہانی کا حصہ تھا، ایک فن کا اظہار تھا۔
لیکن کچھ لوگوں کے لیے یہ "فلمی وردی" نہیں تھی — یہ "غیرقانونی استعمال" تھا۔ اور اسی بنا پر، لاہور کی سیشن کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی — جس میں الزام عائد کیا گیا کہ صبا قمر نے بغیر کسی سرکاری اجازت کے پولیس کی وردی اور ایس پی کے عہدے کا بیج استعمال کیا ہے، جو قانون کی خلاف ورزی ہے۔
درخواست دینے والے وکیل آفتاب باجوہ نے شہری وسیم زوار کی جانب سے یہ معاملہ عدالت تک لے گئے۔ ان کا موقف ہے کہ "کسی بھی فرد کو سرکاری اجازت کے بغیر پولیس کی وردی یا ایس پی کے عہدے کا بیج استعمال کرنے کی اجازت نہیں"۔
فن کی آزادی کے خلاف کیا یہ ایک نیا حملہ ہے؟
اب یہاں ایک اہم سوال اُبھرتا ہے: کیا ایک اداکار کو اپنے کردار کے لیے لباس پہننے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے؟ کیا ہر فلم یا ڈرامے میں پولیس، فوج، یا سرکاری اہلکار کا کردار ادا کرنے والا اداکار اب ایک قانونی جرم کا مرتکب ہوگا؟
اس سوال کا جواب دینے والے ایک میگزین کے ایڈیٹر ان چیف نے طنزیہ انداز میں لکھا:
"ڈیئر، کیا آپ توقع کر رہے تھے کہ وہ پولیس افسر کا کردار دلہن کے لباس یا لان کے سوٹ کے ساتھ ادا کریں گی؟ کیونکہ کردار ہمیشہ رول کے مطابق لباس پہنتے ہیں، نہ کہ آپ کی بے وقوفانہ تخلیق کے مطابق۔"
یہ بیان صرف ایک دفاع نہیں تھا — یہ ایک چیلنج تھا۔ ایک چیلنج جو سماج کو یاد دلاتا ہے کہ فن کی آزادی کا مطلب ہے کہ ایک اداکار کو اپنے کردار کو حقیقت کے قریب لانے کی آزادی ہونی چاہیے — چاہے وہ کردار کوئی بھی ہو۔
صبا قمر کا ردِعمل: طنز، مسکراہٹ، اور ایک سوال
اور پھر آئی صبا قمر کی طنزیہ پوسٹ:
"اوہ خدایا! آج کل میں بہت زیادہ مشہور ہوگئی ہوں۔"
اس مختصر سے جملے میں اتنا کچھ چھپا ہوا ہے۔ ایک طرف یہ ایک مسکراہٹ ہے — ایک ایسی مسکراہٹ جو بتاتی ہے کہ وہ اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لے رہی ہیں۔ دوسری طرف، یہ ایک سوال ہے — کیا میں اتنی مشہور ہو گئی ہوں کہ میرے لباس پر بھی قانونی کارروائی کی جائے؟
اس جملے کے ساتھ انہوں نے مسکراتے ہوئے ایموجیز بھی شامل کیے — جو اس بات کی علامت ہیں کہ وہ اس معاملے کو ایک مذاق کے طور پر لے رہی ہیں۔ لیکن یہ مذاق ہمیں ایک سنگین حقیقت کی طرف لے جاتا ہے: ہمارا معاشرہ فن کو کتنا سمجھتا ہے؟ کیا ہم ایک اداکار کو اس کے کردار کے لیے لباس پہننے کی آزادی دے سکتے ہیں؟
قانون کا منظر: کیا یہ واقعی غیرقانونی ہے؟
اب اگر ہم قانون کی طرف دیکھیں تو سوال یہ ہے کہ کیا صبا قمر نے واقعی کوئی قانون توڑا ہے؟
پولیس افسران کی وردیاں اور بیجز سرکاری املاک ہوتے ہیں۔ اور ہاں، قانون کے تحت کسی بھی شخص کو بغیر اجازت ان کا استعمال کرنا ممنوع ہے۔ لیکن یہاں ایک اہم فرق ہے — استعمال کا مقصد۔
اگر کوئی شخص پولیس کی وردی پہن کر سرکاری امور میں مداخلت کرے، یا لوگوں کو دھوکہ دے، یا جعلی افسر بن کر کسی کو ڈرائے — تو یہ جرم ہے۔ لیکن اگر کوئی اداکار اپنے ڈرامے کے کردار کے لیے وردی پہنے — تو کیا یہ بھی جرم ہے؟
یہ سوال اب عدالت کے سامنے ہے۔ اور یہ سوال صرف صبا قمر کے لیے نہیں — بلکہ ہر اداکار، ہر ڈرامے، ہر فلم کے لیے ہے۔
سوشل میڈیا کا ردعمل: ایک تقسیم ہوا معاشرہ
سوشل میڈیا پر اس معاملے پر دو مہذب گروہ بن گئے ہیں۔
ایک گروہ وہ ہے جو صبا قمر کے خلاف ہے — جو کہتا ہے کہ "یہ ایک سرکاری وردی ہے، اسے بغیر اجازت پہننا غلط ہے"۔
دوسرے گروہ کا موقف ہے کہ "یہ ایک کردار ہے، ایک فن ہے — کیا ہم فن کو بھی قانون کی چار دیواری میں قید کرنا چاہتے ہیں؟"
اس تقسیم نے ہمیں یہ بھی دکھا دیا کہ ہمارا معاشرہ کتنا مختلف ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو قانون کی سختی پر زور دیتے ہیں — دوسری طرف وہ جو فن کی آزادی کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔
مستقبل کے لیے کیا معنی رکھتا ہے یہ معاملہ؟
یہ معاملہ صرف صبا قمر کا نہیں — یہ ہمارے معاشرے کا ہے۔ اگر عدالت صبا قمر کے خلاف فیصلہ دیتی ہے تو یہ ایک خطرناک прецедن بن سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہوگا کہ اب ہر اداکار کو اپنے کردار کے لیے لباس پہننے سے پہلے عدالت سے اجازت لینی پڑے گی۔
کیا ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ڈرامے اور فلمیں ایک بار پھر سے "بے رنگ" ہو جائیں؟ کیا ہم چاہتے ہیں کہ ہر اداکار کو اپنے کردار کو ادا کرنے سے پہلے ایک قانونی چیک لسٹ پر دستخط کرنا پڑے؟
یہ سوالات ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ فن کی آزادی صرف ایک الفاظ کا کھیل نہیں — یہ ہمارے ثقافتی ورثے کا حصہ ہے۔
آخری بات: فن کو سمجھنا ہوگا، نہ کہ سزا دینا
صبا قمر کا معاملہ ہمیں ایک بار پھر یاد دلاتا ہے کہ فن کو سمجھنا ہوگا — نہ کہ سزا دینا۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ایک اداکار کا لباس اس کی ذات نہیں ہوتا — یہ اس کے کردار کا حصہ ہوتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ایک ڈرامے میں پولیس افسر کا کردار ادا کرنا، ایک قانونی جرم نہیں — یہ ایک فن ہے۔
اور اگر ہم اس فن کو سمجھنے کے بجائے اسے سزا دینے کی کوشش کریں گے — تو ہم نہ صرف صبا قمر کو ہرا دیں گے — بلکہ ہمارے معاشرے کو بھی۔
لڑکی سے آن لائن محبت ہوئی لیکن دھوکا ملا: اداکار ٹیپو شریف کا چونکا دینے والا انکشاف
نتیجہ: ایک وردی، ایک سوال، اور ایک مستقبل
صبا قمر کے خلاف درخواست کا معاملہ صرف ایک قانونی مسئلہ نہیں — یہ ایک ثقافتی، سماجی اور فکری سوال ہے۔
یہ سوال ہم سے پوچھا گیا ہے: کیا ہم فن کو سمجھتے ہیں؟ کیا ہم ایک اداکار کو اس کے کردار کے لیے لباس پہننے کی آزادی دے سکتے ہیں؟ کیا ہم اپنے معاشرے کو ایک بار پھر سے فن کی آزادی کی طرف لے جا سکتے ہیں؟
ہمیں امید ہے کہ عدالت اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھے گی — اور ایک ایسا فیصلہ دے گی جو فن کی آزادی کو تحفظ دے، نہ کہ اسے کمزور کرے۔
اور صبا قمر — آپ کی مسکراہٹ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ فن کبھی ہار نہیں سکتا۔ کیونکہ فن وہ ہے جو ہمیشہ زندہ رہتا ہے — چاہے کتنی ہی وردیاں، کتنے ہی قوانین، کتنے ہی مقدمے کیوں نہ ہوں۔
